چوٹیوں کے مشعل بردار اور اندھیروں کا چیلنج

المناک واقعات اور نوجوانوں، والدین و معاشرے کی اجتماعی ذمہ داریاں

گلگت بلتستان اپنی بلند چوٹیوں اور دلکش فطری مناظر کے باعث دنیا میں پہچانا جاتا ہے۔ تاہم حال ہی میں پیش آنے والا ایک المناک واقعہ، جس میں ایک کم عمر نوجوان-راجہ کاشان-اپنے ہی ہم عمروں کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گیا، نے پورے معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ سانحہ نہ صرف نوجوانوں کے کردار بلکہ والدین، تعلیمی اداروں اور سماجی ڈھانچے کی بنیادی ذمہ داریوں کو بھی سوالیہ نشان بنا دیتا ہے۔ دراصل یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ترقی کے خواب اور پائیدار مستقبل اسی وقت ممکن ہیں جب ہم اپنے بچوں کو محفوظ، باوقار اور انصاف پر مبنی ماحول فراہم کریں (WHO, 2020

Image retrieved from: https://www.google.com/imgres?

بچوں کی شخصیت سازی میں والدین کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اچھی پرورش صرف کھانے، کپڑے اور تعلیم تک محدود نہیں بلکہ اس کا مقصد کردار کی تعمیر، عزتِ نفس کا فروغ، دوسروں کے احترام اور تحمل جیسے اوصاف کی آبیاری ہے۔ والدین اور بچوں کے درمیان کھلے مکالمے کی فضا پیدا ہونا ضروری ہے تاکہ بچے اپنے مسائل بلا خوف و جھجک بیان کر سکیں۔ اسی طرح آزادی کے ساتھ حدود اور ذمہ داریوں کی تعلیم دینا بھی پرورش کا اہم حصہ ہے تاکہ نوجوان معاشرتی قدروں سے جڑے رہیں اور بے راہ روی سے بچ سکیں (UNICEF, 2021

اس کے ساتھ ساتھ قانون کی حکمرانی بھی سماج میں امن و انصاف قائم رکھنے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ راجہ کاشان جیسے واقعات اس وقت جنم لیتے ہیں جب قانون کی گرفت کمزور ہو اور سماج خاموش تماشائی بن جائے۔ ایسے جرائم پر فوری اور شفاف کارروائی ناگزیر ہے تاکہ مجرموں کو عبرت کا نشان بنایا جا سکے۔ دیہی علاقوں میں کمیونٹی آگاںی کو فروغ دینا، پولیس اور عوام کے درمیان اعتماد کی فضا قائم کرنا، اور مقامی اداروں جیسے اسکولوں اور  سماجی اداروں کو فعال بنانا بچوں کے تحفظ کے لیے لازمی اقدامات ہیں (Government of Pakistan, 2017

بچوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ ریاست اور معاشرے کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ ہر بچہ زندگی اور تحفظ کے حق کا حامل ہے اور اسے جسمانی، ذہنی یا جذباتی تشدد سے محفوظ رکھنا ناگزیر ہے۔ تعلیم اور آگاہی کے ذریعے بچوں کو ان کے حقوق اور ذمہ داریوں سے روشناس کروانا ضروری ہے تاکہ وہ اپنی زندگی کے فیصلوں میں بامعنی شمولیت اختیار کر سکیں اور اپنی آواز کو مؤثر انداز میں بلند کر سکیں (UNICEF, 2021

نوجوانوں کو محض مستقبل کے رہنما سمجھنے کے بجائے حال کے معمار اور تبدیلی کے وکیل تصور کرنا چاہیے۔ اگر وہ عدم تشدد، برداشت اور رواداری کو اپنی پہچان بنائیں، تو وہ معاشرے کو مثبت سمت دے سکتے ہیں۔ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کا استعمال اس تناظر میں غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ تاہم یہ استعمال صرف اس وقت فائدہ مند ہے جب اسے نفرت انگیزی، الزام تراشی اور بے بنیاد پروپیگنڈے کے بجائے مثبت بیانیے، آگاہی اور تعمیرِ سماج کے لیے بروئے کار لایا جائے-  (Qureshi & Saleem, 2022

 اسی طرح ثقافتی ورثے اور اقدار کی پاسداری نوجوانوں کی شخصیت کا حصہ ہونا چاہیے تاکہ وہ عالمگیریت کے دباؤ میں اپنی شناخت کھونے کے بجائے اسے مزید مضبوط بنا سکیں۔

اس بحث میں سوشل میڈیا کو الگ سے سمجھنا ناگزیر ہے۔ ایک طرف یہ نوجوانوں کو آواز بلند کرنے، تعلیم حاصل کرنے، کاروبار کرنے اور دنیا سے جڑنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ پلیٹ فارم نہ صرف اپنی ثقافت اور مقامی ورثے کو اجاگر کرنے میں مدد دیتا ہے بلکہ ماحولیاتی اور سماجی مسائل پر مکالمہ شروع کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ دوسری طرف، سوشل میڈیا کے خطرات بھی کم نہیں۔ نفرت انگیز مہمات، سائبر بُلینگ اور غیر مصدقہ معلومات کا پھیلاؤ کئی نوجوانوں کی زندگی کو متاثر کرتا ہے (Livingstone & Stoilova, 2019)۔ 

راجہ کاشان کا واقعہ اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ سوشل میڈیا پر لگائے گئے الزامات بعض اوقات جسمانی تشدد اور جان کے نقصان تک جا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مستقبل کے تقاضوں میں نوجوانوں کو ڈیجیٹل لٹریسی سکھانا، ریاستی سطح پر سائبر قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرنا اور والدین و اساتذہ کی جانب سے بچوں کی آن لائن سرگرمیوں کی رہنمائی کرنا بنیادی ترجیحات ہونی چاہییں (Government of Pakistan, 2017

یہ واقعہ دراصل ایک بڑے سماجی مکالمے کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ والدین، اساتذہ، سماجی رہنما اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مل کر ایسی حکمتِ عملی وضع کرنی چاہیے جو بچوں کے لیے محفوظ ماحول کو یقینی بنائے۔ اسکولوں اور مقامی کمیونٹیز میں بچوں کے حقوق، تشدد سے پاک معاشرت اور سوشل میڈیا کے ذمہ دارانہ استعمال پر آگاہی مہمات وقت کی اہم ضرورت ہیں (WHO, 2020

آخرکار راجہ کاشان کا المیہ محض ایک فرد کا نقصان نہیں بلکہ پوری کمیونٹی کے اجتماعی ضمیر پر بوجھ ہے۔ اگر ہم نے اب بھی خاموشی اختیار کی تو یہ خطہ اپنی معصوم مسکراہٹیں کھو دے گا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اچھی پرورش، قانون کی حکمرانی، بچوں کے حقوق کا تحفظ، نوجوانوں کی مثبت قیادت اور سوشل میڈیا کے ذمہ دارانہ استعمال کو اپنی اجتماعی ترجیح بنائیں۔ یہی وہ روشنی ہے جو چوٹیوں کے مشعل بردار نوجوانوں کو اندھیروں سے نکال کر ایک روشن اور پُرامن مستقبل کی طرف لے جا سکتی ہے۔


حوالاجات (References) 

Government of Pakistan. (2017). The Prevention of Electronic Crimes Act (PECA). Ministry of Information Technology.

Livingstone, S., & Stoilova, M. (2019). The 4Cs: Classifying online risk to children. London School of Economics and Political Science.

Qureshi, M. A., & Saleem, K. (2022). Youth, social media and violence in Pakistan: An emerging challenge. Journal of Social Issues in South Asia, 8(2), 45–67.

UNICEF. (2021). The state of the world’s children 2021: On my mind – Promoting, protecting and caring for children’s mental health. UNICEF.

World Health Organization. (2020). Global status report on preventing violence against children 2020. World Health Organization.

Comments

Popular posts from this blog

Reviewing the Ancient History of Hunza By Haji Qudratullah Beg

Tagham: A Ploughing Festival Celebrating the Arrival of Spring

Rays of Hope: The Power of Arts as an Intellectual Discourse