سبز خوابوں کے رکھوالے
یہ نظم دنیور مانوگاہ، گلگت کے اُن جان نثار رضاکاروں کی یاد کا روشن چراغ ہے جو خلقِ خدا کی خدمت کی راہ میں اپنی جانیں قربان کر کے تاریخ میں امر ہو گئے۔ محبت، قربانی اور یادوں کی خوشبو میں رچی یہ نذرِانہ عقیدت نہ صرف ان کی عظمت کو سلام ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک ابدی عہد بھی ہے کہ یہ خدمت گار، جنہوں نے ایثار کی نئی مثال قائم کی، اُن کے مشن کا چراغ ہمیشہ فروزاں رہے گا اور دلوں کو منور کرتا رہے گا۔
پہاڑوں پہ بکھری ہے دھوپ کی لکیر
چناروں میں گونجے ہوا کی تحریر
گلوں کی خوشبو میں جذبوں کا رنگ
چمن کی ہر کلی میں امیدوں کا سنگ
وہ نکلے تھے پیاسے دریاؤں کی سمت
چمن کو پلانے سبزاؤں کی سمت
صبا ان کے قدموں کو چومتی گئی
فضا ان کے خوابوں کو بُنتی گئی
وہ پتھروں سے ٹکرا کے بھی مسکرائے
زمیں کو بہاروں کا تحفہ دلائے
وہ ماؤں کی دعاؤں کے خوشبو بھرے
وہ بہنوں کے سپنوں میں جگنو بھرے
والد کی آنکھوں میں امید کا چراغ
ہے روشنی دیتا ہر شبِ فراق
وہ دوستوں کی آنکھوں کا تھا مان سب
وہ وادی کا چمکتا ہوا تھا لب لب
جب پانی کی ندی نے پکارا انہیں
وفا کے سہارے نے سنوارا انہیں
وہ گئے تو ہوا بھی اداس ہو گئی
گلابوں کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں
مگر ان کے جذبے ہیں زندہ یہاں
ہر سبز پتّے میں ہے ان کی دعا
یہ بادل کی بارش، یہ خوشبو کی ریت
سناتی ہے قربانیوں کی وہ پریت
یہ وادی، یہ سبزہ، یہ رنگِ بہار
ہے ان کا امانت، ہے ان کا پیار
وہ حوصلے سے ہے صبر کا سفیر
دل میں رکھا ہے دعاؤں کا پیر
پرندوں کے گیتوں میں گونجے وہ نام
پہاڑوں کی چوٹی پہ لکھا پیغام
چاندنی راتوں میں بہتا ہے سکوت
سناتا ہے قربانی کا وہ ثبوت
Amazing poetry for the volunteer who had lost their lives in the preparation of maintaining the water channels.
ReplyDeleteYour poetry is indeed incredible!
Delete