گلگت بلتستان میں ڈیٹا پر مبنی جمہوریت: 2026ء کے انتخابات سے پہلے شفافیت کا نیا معاہدہ

GB Assembly Image: https://share.google/988yPyYbBt4OEC8Zr

  گلگت بلتستان میں جمہوریت کے ارتقا کے موجودہ دور میں، جہاں موجودہ اسمبلی کا دور نومبر 2025ء میں اختتام پذیر ہو رہا ہے اور 2026ء کے آغاز می ں نئے انتخابات متوقع ہیں، وہاں ڈیٹا کی اہمیت ایک ناگزیر حقیقت بن کر سامنے آ رہی ہے۔ جدید ڈیجیٹل دور میں ڈیٹا محض اعداد و شمار کا ذخیرہ نہیں رہا، بلکہ یہ موثر حکمرانی کا ایک اہم ستون بن چکا ہے (Mayer-Schönberger & Cukier, 2013)۔

تاہم، ڈیٹا کی عدم دستیابی یا اس کے غیر موثر استعمال سے پیدا ہونے والے مسائل نے حکمرانی کے معیار پر سوالیہ نشان کھڑے کیے ہیں۔ آئندہ انتخابات نہ صرف ایک نئی حکومت کے انتخاب کا موقع ہیں، بلکہ ڈیٹا پر مبنی احتساب کے ایک نئے معاہدے کا نقطۂ آغاز بھی ہو سکتے ہیں۔

شفافیت کے بحران کا منظرنامہ: ثبوتوں کی روشنی میں

حکومتی نظام میں ڈیٹا کی شفافیت کو یقینی بنانا وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکا ہے، خاص کر ترقیاتی منصوبوں اور داخلی انتظامیہ کے شعبوں میں، جہاں وعدوں اور عملی کارکردگی کے درمیان اکثر ایک بڑا فرق دیکھنے میں آتا ہے۔

1. ترقیاتی منصوبوں میں خامیوں کا انکشاف:

آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی ایک تازہ رپورٹ میں GLOF-II منصوبے کے حوالے سے کئی خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، منصوبے کے بجٹ کے استعمال میں شفافیت کی کمی پائی گئی، خریدے گئے سازوسامان کے استعمال کے حوالے سے واضح ریکارڈ موجود نہیں تھے، اور منصوبے کی پیش رفت کی نگرانی کے لیے قائم کردہ نظام موثر طریقے سے کام نہیں کر رہا تھا (Auditor General of Pakistan, 2023)۔ یہ صورت حال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ ڈیٹا کی شفافیت ترقیاتی منصوبوں کی کامیابی کے لیے کتنی اہم ہے۔

اسی طرح محکمہ سڑکوں کے ایک حالیہ منصوبے میں بھی ڈیٹا کی عدم دستیابی کے مسائل سامنے آئے۔ محکمے کی ایک رپورٹ کے مطابق، منصوبے کے اخراجات اور کام کے معیار کے حوالے سے ڈیٹا کا درست اندراج نہ ہونے کے برابر تھا (Communication & Works Department GB, 2023)۔

2. تعمیراتی منصوبوں میں معیار اور احتساب کے مسائل:

گلگت بلتستان میں ترقیاتی انفراسٹرکچر کے معاملے میں ڈیٹا کا بحران انتہائی سنگین صورت اختیار کر چکا ہے۔ محکمہ کاموں کے اعداد و شمار کے مطابق، متعدد تعمیراتی منصوبے برسوں سے زیر التواء ہیں جبکہ بعض منصوبوں پر ہونے والا کام معیاری کمزوریوں کا شکار ہے۔

· ناقص معیار تعمیر: سڑکوں کی تعمیر میں ذیلی معیاری مواد کے استعمال، عوامی عمارتوں میں تعمیری خامیوں، اور پانی کی فراہمی کے منصوبوں میں ناقص پائپ لائنز کے مسائل بار بار سامنے آتے ہیں۔

· منصوبوں کی غیر معینہ مدت تک التواء: بعض ترقیاتی منصوبے طے شدہ مدت سے برسوں بعد بھی مکمل نہیں ہو پاتے، جس سے عوامی وسائل کا زیاں ہوتا ہے اور عوام کو بنیادی سہولیات سے محروم رہنا پڑتا ہے۔

· ٹھیکیداروں کے خلاف عدم کارروائی: معیاری کمزوریوں اور مدت میں تاخیر کے باوجود ٹھیکیداروں کے خلاف موثر کارروائی کا نظام موجود نہیں ہے، جس کی وجہ سے یہ سلسلہ مسلسل جاری رہتا ہے۔

3. اداراتی شفافیت پر سوالیہ نشان:

GLOF-II کا معاملہ محض ایک آغاز ثابت ہوا ہے۔ حالیہ عوامی میڈیا رپورٹس میں سروس ڈیلیوری یونٹ (ایس ڈی یو) جیسے جدید ادارے میں مبینہ مالیاتی بدعنوانی کے واقعات سامنے آئے ہیں (Public Media Reports on SDU, 2024)۔ ایس ڈی یو جیسے ادارے، جن کا مقصد ہی شفافیت اور موثر خدمت کی فراہمی ہے، اگر ان میں ڈیٹا کی دیواروں کے پیچھے غبن کے واقعات رونما ہو رہے ہیں، تو یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ محض نئے ڈیجیٹل نظام کافی نہیں ہیں۔ اگر ایس ڈی یو کا ہر معاہدہ، ہر خریداری کا آرڈر اور ہر اثاثہ ایک عوامی ڈیٹا پورٹل پر دستیاب ہوتا، تو ایسے مبینہ افعال کا انکشاف اور احتساب بہت پہلے ممکن ہو سکتا تھا۔

4. صحت اور تعلیم کے شعبوں میں ڈیٹا کا فقدان:

صحت کے شعبے میں ڈیٹا کے مؤثر استعمال سے خدمات کے معیار میں واضح بہتری لائی جا سکتی ہے۔ محکمہ صحت کی ایک اندرونی رپورٹ کے مطابق، ادویات کی خریداری اور تقسیم کے عمل میں ڈیٹا کی عدم موجودگی کے باعث بعض مسائل کا سامنا کرنا پڑا (Health Department GB, 2022)۔ اسی طرح تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی تقرری کے عمل میں بھی بعض ایسے معاملات سامنے آئے ہیں جو نظام کی بہتری کی ضرورت کو ظاہر کرتے ہیں۔ محکمہ تعلیم کے اعداد و شمار کے مطابق، بعض اضلاع میں تقرریوں کے عمل میں ڈیٹا کی عدم شفافیت کے مسائل درپیش رہے (Education Department GB, 2022)۔

5. ملازمین کے حقوق کا المیہ: غیر شفاف سینئرٹی لسٹیں:

شفافیت کا بحران محض ترقیاتی بجٹ تک محدود نہیں ہے۔ یہ سرکاری ملازمین کے کیریئر اور بنیادی حقوق کو براہ راست متاثر کرتا ہے۔ غیر شفاف اور مبہم سینئرٹی لسٹیں (Seniority Lists) ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس کی وجہ سے ہونے والے تنازعات ملازمین کو عدالتوں کے چکر کاٹنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔

· عدالتی دیرینہ انصاف: ایسے مقدمات اکثر دہائیوں تک عدالتوں میں لٹکے رہتے ہیں۔ ایک ملازم اپنی ترقی اور مراعات کے لیے جدوجہد کرتا ہے، لیکن اکثر اوقات اسے انصاف اس وقت ملتا ہے جب وہ ریٹائرمنٹ کے قریب ہوتا ہے یا ریٹائر ہو چکا ہوتا ہے، جس سے اسے شدید مالی اور ذہنی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

· ادارہ جاتی کارکردگی پر اثر: یہ عدم شفافیت محکموں میں بداعتمادی، حوصلہ شکنی اور کم کارکردگی کا باعث بنتی ہے۔ جب ترقی کا نظام شفاف نہ ہو، تو محنت اور صلاحیت کی بجائے سفارشات اور دیگر غیر رسمی عوامل غالب آ جاتے ہیں۔

2026ء کے انتخابات: ڈیٹا کے ذریعے جمہوریت کا استحکام

آئندہ 2026ء کے انتخابات میں ڈیٹا کی شفافیت ایک کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ یہ انتخابات محض سیاسی جماعتوں کے درمیان مقابلہ نہیں، بلکہ احتساب اور شفافیت کے دو ماڈلز کے درمیان عوامی انتخاب ہونا چاہیے۔

· ووٹرز کی رجسٹریشن: ووٹرز کی رجسٹریشن کے عمل کو ڈیجیٹل نظام کے ذریعے مزید شفاف اور مضبوط بنا کر ہر حقیقی ووٹر کو اس کے حق تک پہنچانا۔

· امیدواروں کے وعدے: انتخابی مہم کے دوران امیدواروں کے منشوروں اور وعدوں کو ڈیٹا کی صورت میں، واضح اور قابل پیمائش اہداف کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے۔

· نتائج کی ترسیل: ووٹوں کے شمار اور نتائج کے اعلان کے عمل کو ڈیجیٹل نظام کے ذریعے مزید قابل اعتماد بنایا جا سکتا ہے۔ پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم (RTS) متعارف کرایا جائے، جہاں ہر پولنگ اسٹیشن سے نتائج کی اسکینڈ کاپیز الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر دو گھنٹے کے اندر اپ لوڈ کی جائیں، تاکہ انتخابی سالمیت کو یقینی بنایا جا سکے۔

آگے کا راستہ: ایک عملی اور جامع ایجنڈا

GLOF-II اور ایس ڈی یو کے واقعات سے سبق لے کر، آنے والی حکومت کے لیے ڈیٹا کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے درج ذیل مخصوص اور قابل عمل اقدامات ناگزیر ہیں:

1. مرکزی عوامی ڈیٹا ڈیش بورڈ: تمام محکموں کے لیے ایک مرکزی عوامی ڈیٹا ڈیش بورڈ کا قیام، جہاں بجٹ، اخراجات، ترقیاتی منصوبوں کی کارکردگی اور خریداریوں کی حقیقی وقت میں معلومات دستیاب ہوں۔ یہ شفافیت کی بنیاد ہوگا۔
2. ڈیجیٹل اثاثہ مینجمنٹ سسٹم: تمام ترقیاتی منصوبوں کے لیے QR کوڈ والے ڈیجیٹل اثاثہ مینجمنٹ سسٹم کا نفاذ، جہاں ہر خریدے گئے سامان کی تفصیل، مقام اور استعمال کا ریکارڈ عوامی طور پر دیکھا جا سکے۔
3. بلاک چین ٹریکنگ سسٹم: محکمہ صحت کے لیے بلاک چین ٹیکنالوجی پر مبنی ادویات کی خریداری اور تقسیم کا نظام، جہاں ہر دوا کی کھیپ کو پیدا ہونے سے صارف تک ٹریک کیا جا سکے، تاکہ شفافیت اور ساکھ کو یقینی بنایا جا سکے۔
4. تعمیراتی منصوبوں کا ڈیجیٹل نگرانی نظام:
   · لائیو پروجیکٹ مانیٹرنگ: تمام بڑے تعمیراتی منصوبوں پر کیمرے نصب کیے جائیں تاکہ عوام اور محکمہ کاموں کے اہلکار کام کی لائیو نگرانی کر سکیں۔
   · معیاری مواد کا ڈیٹا بیس: تمام تعمیراتی منصوبوں میں استعمال ہونے والے مواد کی مکمل تفصیلات آن لائن ڈیٹا بیس میں درج کی جائیں، جس میں مواد کی کوالٹی، سپلائر کا نام، اور ٹیسٹ رپورٹس شامل ہوں۔
   · ٹھیکیداروں کی کارکردگی کا پبلک ریٹنگ سسٹم: ہر ٹھیکیدار کی کارکردگی، منصوبوں کے معیار، اور وقت پر تکمیل کے ریکارڈ کو عوامی ڈیٹا پورٹل پر شائع کیا جائے۔
5. برائے نام تقرری اور سینئرٹی پورٹل: محکمہ تعلیم اور دیگر شعبوں کے تحت ایک عوامی آن لائن پورٹل کا قیام، جہاں تمام تقرریوں کے امیدواروں کی فہرست، معیار اور انتخاب کے عمل کی مکمل تفصیلات شائع کی جائیں۔
6. شیشے جیسا سروس ڈیٹا بیس (Glassbox Service Database): تمام محکموں کے لیے ایک مرکزی، عوامی طور پر قابل رسائی آن لائن ڈیٹا بیس کا قیام، جہاں ہر ملازم کی سینئرٹی لسٹ، ترقی کے تقاضے، اور خدمت کے قوانین (Service Rules) کا واضح ریکارڈ رکھا جائے۔ اس ڈیٹا بیس میں ہی ہر ملازم کی ترقی کے لیے درخواست، اس کا حیثیت (status)، اور فیصلے کی وجوہات بھی درج ہوں۔ اس سے نہ صرف سینئرٹی کے تنازعات ختم ہوں گے بلکہ ملازمین کو ان کے حقوق کے حصول کے لیے مہینوں اور برسوں عدالتوں میں بھٹکنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اس کے ساتھ ہی سروس رولز کی سختی سے ڈیجیٹل انفورسمنٹ یقینی بنائی جائے۔

نتیجہ:

ڈیٹا ہماری جمہوری طاقت ہے۔ GLOF-II، ایس ڈی یو کے معاملات، سینئرٹی لسٹوں کے دائمی تنازعات، اور تعمیراتی منصوبوں میں پائے جانے والے معیاری مسائل ہمارے سامنے واضح ثبوت پیش کرتے ہیں کہ ڈیٹا کی غیر موجودگی یا غیر شفافیت بدعنوانی، نااہلی اور انسانی المیوں کے لیے زرخیز زمین فراہم کرتی ہے۔ آئندہ 2026ء کے انتخابات گلگت بلتستان کے جمہوری سفر میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتے ہیں۔ اگر ڈیٹا کی شفافیت کو حکمرانی کا مرکزی نکتہ بنایا جائے تو نہ صرف ترقیاتی منصوبوں میں بہتری آئے گی اور ملازمین کے حقوق کا تحفظ ہوگا، بلکہ عوامی خدمات کے معیار میں بھی واضح تبدیلی نظر آئے گی۔

حتمی فیصلہ گلگت بلتستان کے عوام کے ہاتھ میں ہے۔ ان کا ووٹ صرف ایک امیدوار کے لیے نہیں، بلکہ ڈیٹا کی شفافیت کے ایک ایسے مضبوط نظام کے لیے ہونا چاہیے جو یہ یقینی بنائے کہ ہر روپیہ، ہر منصوبہ، ہر ملازم کا کیریئر، اور ہر خدمت عوام کی نظروں کے سامنے ہو۔ کیونکہ حقیقی جمہوریت وہی ہے جہاں عوام کا ڈیٹا، عوام کے لیے، اور عوام کے سامنے ہو۔ ڈیٹا پر مبنی حکمرانی کا یہ نیا ماڈل نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پورے خطے کے لیے ایک مثال قائم کر سکتا ہے۔

حوالہ جات (References)

Auditor General of Pakistan

Auditor General of Pakistan. (2023). Performance Audit Report on GLOF-II Project. Government of Pakistan.

Communication & Works Department GB. (2023). Annual Development Report 2022-23. Government of Gilgit-Baltistan.

Education Department GB. (2022). Annual Report on Educational Statistics. Author.

Health Department GB. (2022). Healthcare Infrastructure Development Report. Author.

Mayer-Schönberger, V., & Cukier, K. (2013). Big Data: A Revolution That Will Transform How We Live, Work, and Think. Houghton Mifflin Harcourt.

Public Media Reports on SDU, Gilgit-Baltistan. (2024). [Based on aggregated reporting from local news outlets].

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

Reviewing the Ancient History of Hunza By Haji Qudratullah Beg

Tagham: A Ploughing Festival Celebrating the Arrival of Spring

Rays of Hope: The Power of Arts as an Intellectual Discourse